اِمثال

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31

0:00
0:00

باب 1

اِسرائیل کے بادشاہ سلیمان داؤد کی امثال۔
2 حکمت اور تربیت حاصل کرنے اور فہم کی باتوں کا امتیاز کر نے کے لئے۔
3 عقلمندی اورصداقت اور عدل اور راستی میں تربیت حاصل کرنے کے لئے
4 سادہ دِ لوں کو ہوشیا ری ۔جوان کو علم اور تمیز بخشنے کے لئے
5 تاکہ دانا آدمی سُنکر علم میں ترقی کرے اور فہیم آدمی دُرست مشورت تک پُہنچے ۔
6 جِس سے مثل اور تمِثیل کو۔داناؤں کی باتوں اور اُنکے معموں کو سمجھ سکے۔
7 خداوند کا خوف علم کا شروع ہے لیکن احمق حکمت اور تربیت کی حقارت کرتے ہیں۔
8 اَے میرے بیٹے !اپنے باپ کی تربیت پر کان لگا اور اپنی ماں کی تعلیم کو ترک نہ کر ۔
9 کیونکہ وہ تیرے سر کے لئےزینت کا سہرا اور تیرے عملے کے لیے طوق ہونگی۔
10 اَے میرے بیٹے !اگر گنہگارتجھے پُھسلا تورضا مند نہ ہونا ۔
11 اگر وہ کہیں ہمارے ساتھ چل ۔ ہم خون کرنے کے لئےتاک میں بیٹھیں اور چھپکر بیگُناہ کے لئےناحق گھات لگائیں ۔
12 ہم اُنکو اِس طرح جیتا اور سمو چانگل جٓا ئیں طرح پاتال مردوں کو نگل جٓاتا ہے۔
13 ہمکو ہر قسم کا نفیس مال میلگا۔ہم اپنے گھروں کو لوٹ سے بھر لینگے ۔
14 تو ہمارے ساتھ مل جٓا ۔ہم سب کی ایک ہی تھیلی ہو گی
15 تو اَے میرے بیٹے !تو انکے ہمراہ نہ جٓانا ۔ اُنکی راہ سے اپنا پاوں روکنا ۔
16 کیونکہ اُنکے پاوں بدی کی طرف دَوڑتے ہیں اور خُون بہانے کے لئے جلدی کرتے ہیں ۔
17 کیونکہ پرندہ کی آنکھوں کے سامنے جٓال بچھانا عبث ہے۔
18 اور یہ لوگ تو اپنا ہی خون کرنے کے لئے تاک میں بیٹھتے ہیں اور چھپکر اپنی ہی جٓان کی گھات لگاتے ہیں ۔
19 نفع کے لالچی کی راہیں اَیسی ہی ہیں ۔اَیسا نفع اُسکی جٓان لیکر ہی چھوڑتا ہے۔
20 حکمت کو چہ میں زور سے پُکارتی ہے۔وہ راستوں میں اپنی آواز بلند کرتی ہے ۔
21 وہ پُر ہجوم بازار میں چلاتی ہے۔وہ چھاٹکوں کے مدخل پر اور شہر میں یہ کہتی ہے۔
22 اَے نادانو!تم کب تک نادانی کو دوست رکھو گے؟اور ٹھٹھا باز کب تک ٹھٹھابازی سے خوش رہنیگے اور احمق کب تک علم سے عداوت رکھینگے ؟
23 تم میری ملامت کو سُنکر باز آو۔دیکھو !میں اپنی روح تم پر اُنڈیلونگی۔ میں تمکو اپنی بایتں بتا ؤنگی ۔
24 چونکہ میں نے بُلایا اور تم نے اِنکار کیا میں نے ہاتھ پھیلایا اور کسی نےخیال نے کیا ۔
25 بلکہ تم نے میری تمام مشورت کو نا چیز جٓانا اور میری ملامت کی بیقدری کی
26 اسلئے میں بھی تمہاری مصیبت کے دن ہنسونگی اور جب تم پر دہشت چھا جٓاینگی تو ٹھٹھامارونگی ۔
27 یعنی جب دہشت طوفان کی طرح آپڑیگی اور آفت بگولے کی طرح تم کو آلیگی ۔جب مُصبیت اور جٓا نکنی تم پر ٹوٹ پڑیگی
28 تب وہ مجھے پکار ینگے لیکن میں جواب نہ دونگی اور دل وجٓان سے مجھے ڈھونڈینگے پر نہ پاینگے ۔
29 اسلئےکہ اُنہوں نے علم سے عداوت رکھی اور خداوند کے خوف کو اخیتار نہ کیا ۔
30 اُنہوں نے میری تمام مشورت کی بے قدری کی اور میری ملامت کو حقیر جٓانا۔
31 پس وہ اپنی ہی روش کا پھل کھا ئینگے اور اپنے ہی منصوبوں سے پیٹ بھر ینگے ۔
32 کیونکہ نادانوں کی برگشتگی اُنکو قتل کر یگی اور احمقوں کی فارغ البالی انکی ہلاکت کا باعث ہو گی۔
33 لیکن جو میری سُنتا ہے وہ محفوظ ہو گا اور آفت سے نڈر ہو کر اِطمینان سے رہیگا۔