ایّوب

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42

0:00
0:00

باب 21

تب ایوب نے جواب دیا:۔
2 غور سے میری بات سُنو اور یہی تمہارا تسلی دینا ہو۔
3 مجھے اِجازت دو تو میں بھی کچھ کہو نگا اور جب میں کہ چکوں تو ٹھٹھا مار لینا ۔
4 لیکن میں ۔ کیا میری فریاد اِنسان سے ہے ؟پھر میں بے صبری کیوں نہ کُروں ؟
5 مجھ پر غور کرو اور متُعجب ہو اور اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھو ۔
6 جب میں یاد کرتا ہوں تو گھبراجاتا ہُوں اور میرا جسم تھرااُٹھتا ہے ۔
7 شریر کیوں جیتے رہتے ۔ عمر رسیدہ ہوتے بلکہ قوت میں زبردست ہوتے ہیں ؟
8 اُنکی اَولاد اُنکے دیکھتے دیکھتے اور اُنکی نسل اُنکی آنکھوں کے سامنے قائم ہوجاتی ہے ۔
9 اُنکے گھر ڈر سے محفوظ ہیں اور خدا کی چھڑی اُن پر نہیں ہے۔
10 اُنکا سانڈباردار کردیتا ہے اور چوکتا نہیں ۔اُنکی گائے بیاتی ہے اور اپنا بچہ نہیں گراتی ۔
11 وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ریوڑ کی طرح باہر بھیجتے ہیں اور اُنکی اَولاد ناچتی ہے۔
12 وہ خنجری اور ستارکے تال پر گاتے اور بانسلی کی آواز سے خوش ہوتے ہیں ۔
13 وہ خوشحالی میں اپنے دِن کاٹتے اور دم کے دم میں پاتال میں اُتر جاتے ہیں ۔
14 حالانکہ اُنہوں نے خدا سے کہا تھا کہ ہمارے پاس سے چلا جا ۔کیونکہ ہم تیری راہوں کی معرفت کے خواہاں نہیں ۔
15 قادِر مطلق ہے کیا کہ ہم اُسکی عبادت کریں؟ اور اگر ہم اُس سے دُعا کریں تو ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟
16 دیکھو! اُنکی اقبالمندی اُنکے ہاتھ میں نہیں ہے۔شریروں کی مشورت مجھ سے دُور ہے۔
17 کتنی بار شریروں کا چراغ بجھ جاتا ہے اور اُنکی آفت اُن پر آپڑتی ہے!اور خدا اپنے غضب میں اُنہیں غم پر غم دیتا ہے
18 اور وہ اَیسے ہیں جیسے ہو اکے آگے ڈنٹھل اور جیسے بھوسا جسے آندھی اُڑ لے جاتی ہے ۔
19 خدا اُسکی بدی اُسکے بچوں کے لئے رکھ چھوڑتا ہے۔وہ اُسکا بدلہ اُسی کو دے تا کہ وہ جان لے۔
20 اُسکی ہلاکت کو اُسی کی آنکھیں دیکھیں اور وہ قادِرمطلق کے غضب میں سے پئے ۔
21 کیونکہ اپنے بعد اُسکو اپنے گھرانے سے کیا خوشی ہے جب اُسکے مہینوں کا سلسلہ ہی کاٹ ڈالا گیا ؟
22 کیا کوئی خدا کو علم سکھائیگا ؟جس حال کہ وہ سرفرازوں کی عدالت کرتا ہے ۔
23 کوئی تو اپنی پُوری طاقت میں چین اور سُکھ سے رہتا ہُوا مرجاتا ہے۔
24 اُسکی دوہنیاں دُودھ سے بھری ہیں اور اُسکی ہڈّیوں کا گودا تر ہے۔
25 اور کوئی اپنے جی میں کڑھ کڑھکر مرتا ہے اور کبھی سُکھ نہیں پاتا ۔
26 وہ دونوں مٹّی میں یکساں پڑجاتے ہیں اور کیڑے اُنہیں ڈھانک لیتے ہیں ۔
27 دیکھو! میں تمہارے خیالوں کو جانتا ہُوں اور اُن منصوبوں کو بھی جو تم بے اِنصافی سے میرے خلاف باندھتے ہو
28 کیونکہ تم کہتے ہو کہ اِمیر کا گھر کہاں رہا ؟ اور وہ خیمہ کہاں ہے جس میں شریر بستے تھے ؟
29 کیا تم نے راستہ چلنے والوں سے کبھی نہیں پُوچھا ؟اور اُنکے آثار نہیں پہچانتے؟
30 کہ شریر آفت کے دِن کے لئے رکھا جاتا ہے اور غضب کے دِن تک پہنچایا جاتا ہے؟
31 کون اُسکی راہ کو اُسکے منہ پر بیان کریگا؟ اور اُسکے کئے کا بدلہ کون اُسے دیگا ؟
32 تو بھی وہ گور میں پہنچایا جائیگا اور اُسکی قبر پر پہرا دیا جائیگا۔
33 وادی کے ڈھیلے اُسے مرغُوب ہیں اور سب لوگ اُسکے پیچھے چلے جائینگے ۔جیسے اُس سے پہلے بے شمار لوگ گئے ۔
34 سو تم کیوں مجھے عبث تسلی دیتے ہو جس حال کہ تمہاری باتوں میں جھوٹ ہی جھوٹ ہے؟