حزقی ایل

1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48

0:00
0:00

باب 33

پھر خداوند کا کلام مجھ پر ناز ل ہوا ۔
2 کہ اے آدمزاد تو اپنی قوم کے فرزندوں سے مخاطب ہو اور ان سے کہہ جس وقت میں کسی سرزمین پر تلوار چلاﺅں اور اس کے لوگ اپنے بہادروں میں سے ایک کو لیں اور اسے اپنا نگہبان ٹھہرائےں ۔
3 اور وہ تلوارکو اپنی سرزمین پر آتے دیکھ کر نرسنگا پھونکے اور لوگوں کو ہوشیار کرے ۔
4 تب جو کوئی نرسنگے کی آواز سنے اور ہوشیار نہ ہو اور تلوار آئے اور قتل کرے تو اسکا خون اسی کی گردن پر ہوگا ۔
5 اس نے نرسنگے کی آواز سنی اور ہوشیار نہ ہوا ۔اس کا خون اسی پر ہوگا حالا نکہ اگر وہ ہوشیار ہوتا تو اپنی جان بچاتا ۔
6 پر اگر نگہبان تلوار آتے دیکھے اور نرسنگا نہ پھونکے اور لوگ ہوشیار نہ کئے جائیں اور تلوار آئے اور ان کے درمیان سے کسی کو لے جائے تو وہ اپنی بد کرداری میں ہلاک ہوا لیکن میں نگہبان سے اس کے خون کی باز پرس کرونگا ۔
7 سو تو اے آدمزاد اسلئے کہ میں نے تجھے بنی سرائیل کا نگہبان مقرر کیا مےرے منہ کا کلام سن رکھ اور میری طرف سے ان کو ہوشیار کر ۔
8 جب میں شرےر سے کہوں اے شرےر تو ےقینا مرےگا اس وقت اگر تو شرےر سے نہ کہے اور اسے اس کی روش سے آگاہ نہ کرے تو وہ شرےر تو اپنی بدکرداری میں مرےگا پر میں تجھ سے اس کے خون کی باز پرس کرونگا ۔
9 لیکن اگر تو اس شرےر کو جتائے کہ وہ اپنی روش سے باز آئے اور وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو وہ اپنی بدکرداری میں مرےگا لیکن تو نے اپنی جان بچا لی ۔
10 اسلئے اے آدمزاد تو بنی اسرائیل سے کہہ تم ےوں کہتے ہو کہ فی الحقیقت ہماری خطائیں اور ہمارے گناہ ہم پر ہیں اور ہم ان میں گھلتے رہتے ہیں ۔پس ہم کیونکر زندہ رہیں گے ؟
11 تو ان سے کہہ خداوند خدا فرماتا ہے تجھے اپنی حےات کی قسم شرےر کے مرنے میں تجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شرےر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ ہے ۔اے بنی اسرائیل باز آﺅ۔تم اپنی بری روش سے باز آﺅ۔تم کیوں مروگے ؟
12 اسلئے اے آدمزاد اپنی قوم کے فرزندوں سے یوں کہہ کہ صادق کی صداقت اس کی خطا کاری کے دن اسے نہ بچائے گی اور شرےر کی شرارت جب وہ اس سے باز آئے تو اس کے گرنے کا سبب نہ ہو گی اور صادق جب گناہ کرے تو اپنی صداقت کے سبب سے زندہ نہ رہ سکے گا ۔
13 جب میں صادق سے کہوں کہ تو ےقینا زندہ رہیگا اگر وہ اپنی صداقت پر تکیہ کرکے بدکرداری کرے تو اس کی صداقت کے کام فراموش ہو جائےنگے اور وہ اس بدکرداری کے سبب سے جو اس نے کی ہے مرےگا ۔
14 اور جب شرےر سے کہوں تو ےقینا مرےگا اگروہ اپنے گناہ سے باز آئے اور وہی کرے جو جائزوروا ہے ۔
15 اگر وہ شرےر گرو واپس کر دے اور جو اس نے لوٹ لیا ہے واپس دےدے اور زندگی کے آئین پر چلے اور ناراستی نہ کرے تو وہ یقینا زندہ رہیگا ۔وہ نہیں مرےگا ۔
16 جو گناہ اس نے کئے ہیں اس کے خلاف محسوب نہ ہو نگے ۔اس نے وہی کیا جو جائزوروا ہے ۔وہ یقینا زندہ رہیگا ۔
17 پر تےری قوم کے فرزند کہتے ہیں کہ خداوند کی روش راست نہیں حالانکہ خود ان کی روش ناراست ہے ۔
18 اگر صادق اپنی صداقت چھوڑ کر بدکرداری کرے تو وہ یقینا اسی کے سبب سے مرےگا ۔
19 اور اگر شرےر اپنی شرارت سے باز آئے اور وہی کرے جو جائز و روا ہے تو اس کے سبب سے زندہ رہیگے ۔
20 پھر بھی تم کہتے ہو کہ خداوند کی روش راست نہیں ہے ۔ اے بنی اسرائیل میں تم میں سے ہر ایک کی روش کے مطابق تمہاری عدالت کروں گا۔
21 ہماری اسیری کے بارھویںبرس کے دسویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو یوں ہوا کہ ایک شخص جو یروشلیم کو بھاگ نکلا تھامیرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ شہر مسخر ہو گیا۔
22 اور شام کے وقت اس فراری کے پہنچنے سے پیشتر خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس نے میرا منہ کھول دیا۔ اس نے صبح کو اس کے میرے پاس آنے سے پہلے میرا منہ کھول دیا اور میں پھر گونگا نہ رہا۔
23 تب خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا۔
24 کہ اے آدمزاد ملک اسرائیل کے قیرانوں کے باشندے یوں کہتے ہیں کہ ابراہام ایک ہی تھا اور وہ اس ملک کا وارث ہوا پر ہم تو بہت سے ہیں۔ ملک ہم کو میراث میں دیا گیا ہے۔
25 اس لئے تو ان سے کہہ دے خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ تم لہو سمیت کھاتے اور بتوں کی طرف آنکھ اٹھا تے ہو اور خونریزی کرتے ہو۔ کیا تم ملک کے وارث ہو گے؟
26 تم اپنی تلوار پر تکیہ کرتے ہو۔ تم مکروہ کام کرتے ہو اور تم میں سے ہر ایک اپنے ہمسایہ کی بیوی کو ناپاک کرتا ہے۔ کیا تم ملک کے وارث ہو گے؟
27 تو ان سے یوں کہنا کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ مجھے اپنی حیات کی قسم وہ جو ویرانوں میں ہیں تلوار سے قتل ہوں گے اور اسے جو کھلے میدان میں ہیں درندوں کو دوں گا کہ نگل جائیں اور ہ جو قلعوں اور غاروں میں ہیں وبا سے مریں گے۔
28 کیونکہ میں اس ملک کو اجاڑ اور باعث حیرت بناﺅں گا اور اسکی قوت کا گھمنڈ جاتا رہے گااور اسرائیل کے پہاڑ ویران ہوں گے یہاں تک کہ کوئی ان پر سے گذر نہیں کرے گا۔
29 اور جب میں ان کے تمام مکروہ کاموں کے سبب سے جو انہوں نے کئے ہیں ملک کو ویران اور باعث حیرت بناﺅں گا تو وہ جانیں گے کہ مَیں خداوند ہوں۔
30 پر اے آدمزاد فی الحال تیری قوم کے فرزند دیواروں کے پاس اور گھروں کے آستانوں پر تیری بابت گفتگو کرتے ہیں اور ایک دوسرے کہتے ہیں ہاں ہر ایک اپنے بھائی سے یوں کہتا ہے چلو وہ کلام سنیں جو خداوند کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
31 وہ امت کی طرح تیرے پاس آتے اور میرے لوگوں کی مانند تیرے آگے بیٹھتے اور تیری باتیں سنتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے منہ سے توبہت محبت ظاہر کرتے ہیں پر ان کا دل لالچ پر دوڑتا ہے۔
32 اور دیکھ تو ان کےلئے نہایت مرغوب سرودی کی مانند ہے جو خوش الحان اور ماہر ساز بجانے والا ہو کیونکہ وہ تیری باتیں سنتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے۔
33 اور جب یہ باتیں وقوع میں آئیں گی(دیکھ وہ جلد وقوع میں آنے والی ہیں )تب وہ جانیں گے کہ ان کے درمیان ایک نبی تھا۔